ٹیلی پیتھی کیا ہے؟
ٹیلی پیتھی کیا ہے؟
ٹیلی پیتھی کوئی جدید علم نہیں بلکہ قدیم ترین علم ہے۔ مختلف ادوار میں اس کے ماہرین اسے مختلف ناموں سے پکارتے رہے ہیں۔ ٹیلی پیتھی پیراسائیکالوجی کی ایک شاخ ہے اور یہ علم روس، امریکہ سمیت مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔
ٹیلی پیتھی یونانی زبان کا لفظ ہے اور یہ ’’فاصلے‘‘ اور ’’احساس‘‘ کا مرکب ہے۔
اصطلاحی مفہوم میں ایک ذہن کا دوسرے ذہن سے رابطہ بلا کسی مادی واسطے کے ٹیلی پیتھی کہلاتا ہے۔اس علم کی بنیاد رکھنے والے تین نامور افراد تھے۔
-1 پروفیسرسیجوک
-2 فرینک پوڈ مور
-3 ایف ایچ ڈبلیو مائرز
ٹیلی پیتھی انسٹیٹیوٹ ؟
لفظ ٹیلی پیتھی مائرز نے تجویز کیا تھا۔ ان تینوں افراد نے اس علم کو وسعت دینے کے لیے 1882ء میں ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں ’’سوسائٹی فار سائیکک ریسرچ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تحقیق نے ٹیلی پیتھی کو باقاعدہ سائنسی علوم کی صف میں شامل کر دیا۔
مائنڈ ٹو مائنڈ لنک
اللہ تعالیٰ نے ا نسان کوذہن جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جس میں انسان جس شکل، جس جگہ، جس مقام کو چاہے دیکھ سکتا ہے اور جس سے، جب چاہے (مائنڈ ٹو مائنڈ لنک) کر سکتاہے۔ علم ٹیلی پیتھی انسانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے پروان چڑھانے کا موقع فراہم کرتاہے۔ یہ وہ روحانی اور سائنسی علم ہے جس کے ذریعے سے ایک ذہن بالکل واضح طور پر دوسرے ذہن سے رابطہ کر کے اس کے خیالات سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ چاہے وہ ہزاروں میل کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو اس کی قوت زمان و مکاں کے فاصلوں سے آزاد ہے۔
ایمرسن کہتے ہیں۔ ’’شہنشاہت درحقیقت ان لوگوں کی نہیں جو تخت پر بیٹھے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا وصف ہے جو اپنے خیالات پر حکومت کرتے ہیں۔
ٹیلی پیتھی کا نظریہ
ٹیلی پیتھی کا نظریہ مشہور ماہر طبیعات آئن سٹائن کے نظریہ توانائی یعنی ؑ کو روشنی کی رفتار 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ سے حرکت میں لایا جائے تویہ کمیت روشنی یا توانائی میں بدل جاتی ہے۔
(توانائی = کمیت × روشنی کی رفتار2) کے عین مطابق ہے۔ یعنی اگر کمیت (MASS)
ہر انسان کے تحت الشعور میں ایک عظیم مخفی قوت ہوتی ہے جو ہر لمحہ پرواز کے لیے تیار رہتی ہے۔ اگر ہم کوشش کریں تو اس مخفی قوت سے اپنی سوئی ہوئی دماغی قوت اور صلاحیت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ انسان اپنے دماغ کے صرف 10% حصہ کو استعمال کر سکا ہے۔ جب کہ 90% حصہ ناقابل استعمال پڑا ہے لیکن اب انسان نے کوشش شروع کر دی ہے کہ وہ اپنے دماغ کو صد فیصد استعمال کرے۔
سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان 136 عناصر سے بنا ہوا ہے بلکہ اب جدید تحقیق میں 210 عناصر کا ذکر ملتاہے۔ انسان کا تمام مخلوقات سے افضل ہونے کی وجہ اس کا آزاد خیال ہونا قوت ارادی و قوت تصور ہے یعنی اس کی عقل و دانش برتری کا سبب ہے۔
جب انسان مخصوص مشقوں کے ذریعہ سے اپنی دماغی قوتوں کو بیدار کرتا ہے توانسانی دماغ کی کارکردگی و قوت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان مشقوں کا تعلق براہ راست اعصاب اور دماغ سے ہوتا ہے۔ انسانی دماغ سپر کانشیئنس کی سطح پر اس وقت کام کرتا ہے جب قوت توجہ کافی بڑھ جاتی ہے۔ جب ہم توجہ کی قوت بڑھانے کے لیے کسی بھی مقرر چیز کو نظریں جما کر غور سے دیکھتے ہیں تو دماغ کے مرکز احساسات میں آہستہ آہستہ ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور اعصاب محرکہ کے ذریعے سے خیالات کی طاقت ایک مرکزی نقطہ پر سمٹنے لگتی ہے۔ جیسے محدب شیشے کے ذریعے سے سورج کی پیدا ہوتا ہے۔ یعنی شعور کا پھٹ کر 2 حصوں میں بٹ جانا۔ اس طرح توجہ کے منظم رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان کے اندر رفتہ رفتہ ایک لافانی اور لامکانی شعور برآمد ہوتا ہے۔ اس لافانی اور لامکانی شعور سے مراد لاشعور (شعور برتر) ہے۔
ٹیلی پیتھی پاور کیسے کام کرتی ہے؟
مختصر یہ کہ جب انسان توجہ کی مشق میں آبجیکٹ کو خیال کی پوری قوت سے دیکھتا ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہیجان سے دماغ کا پچوٹری گلینڈ حرکت میں آتا ہے عامل پر بے خودی (استغراق کی کیفیت) طاری ہونے لگتی ہے۔پچوٹری گلینڈا س عمل جوں جوں تیز ہوتا ہے شعاعوں کے اخراج کی قوت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ پھر ایک خاص درجہ پر پہنچنے کے بعد دماغ کیادوسراپائنیل گلینڈ اپنا کام شروع کر دیتاہے۔ پائنیل گلینڈ شعور برتر کا مرکز ہے۔جس طرح دماغ کا پچھلا حصہ لاشعور کا مرکز ہے اور ریڑھ کی ہڈی اعصابی نظام کی مرکز ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر انسان کی پوشیدہ، پراسرار قوت جاگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب آپ عام انسانوں کی سطح ذہن سے بلند تر ہونے لگتے ہیں اور سجیشن کے مطابق شعورکی سطح پر تصوراتی نظارہ جنم لینے لگتا ہے۔ یعنی پچوئیٹری گلینڈ تصاویر پیش کر تا ہے اور پائنیل گلینڈ خیالات کو وصول کرنے اور بھیجنے کا کام سر انجام دیتا ہے۔
اسی طرح تمام مشقوں کو باقاعدگی سے سر انجام دینے کے بعد انسان بآسانی دوسرے شخص کے خیالات سے آگاہی ہی نہیں بلکہ اسے کوئی بھی پیغام دے کر عمل درآمد بھی کر وا سکتا ہے۔ اس علم کو ٹیلی پیتھی کہتے ہیں۔